Khan-Net-Cafe.blogspot.com

All about internet Packages and More

Home Top Ad

ماہِ رمضان المبارک سراپا خیر و برکت ہے ۔ اس کے اہتمام میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جنت کو گیارہ مہینوں تک سجایا جاتا ہے اور اس مبارک ماہ میں ا...

ماہِ رمضان المبارک سراپا خیر و برکت ہے ۔ اس کے اہتمام میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جنت کو گیارہ مہینوں تک سجایا جاتا ہے اور اس مبارک ماہ میں اﷲ تعالیٰ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہیں۔ شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور ہر طرف نیکیوں کا ماحول ہوتا ہے ، جس کے چلتے ہر ایمان والے کے لیے نیک عمل کرنا سہل بلکہ سہل ترین ہو جاتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ جیسے ہی یہ مبارک ماہ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے ، ہم میں سے بہت سے پھر اﷲ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں، جو یقیناً کم ہمتی کی علامت اور سخت محرومی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کی زندگیوں میں بار بار رمضان المبارک عطا فرمائے اور اس کی وصول یابی کی توفیق سے بھی نوازے اور پوری زندگی محرمات سے اجتناب اور طاعت کا اہتمام نصیب فرمائے ۔ آمین

روزوں کا مقصودِ اصلی
ارشادِ ربانی ہے :یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ، اس امید پر کہ تم متقی و پرہیزگار بن جاؤ۔(البقرۃ)معلوم ہوا کہ روزوں کا مقصودِ اصلی تقوے کا حصول ہے ۔ لہٰذا ایک مہینے مسلسل روزے رکھنے کے بعد بھی اگر ہمارے اندر تقوے کی صفت پیدا نہ ہو تو یہ بات مناسب نہیں۔ 

ماہِ رمضان کی سچی قدر دانی
رمضان المبارک کی سچی قدر دانی یہ ہے کہ نیک اعمال پر اس کے بعد بھی مداومت و استقامت اختیار کی جائے ۔ ارشادِ ربانی ہے :اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔بے شک! جنھوں نے (دل سے) کہا کہ ہمارا رب اﷲ ہے پھر اس پر قائم رہے ، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ ڈرو اور نہ غم کرواور خوش ہو جاؤ اس جنّت پر جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ۔ (فصلت)

استقامت کی تعریف
پہلے جز کو لفظ استقامت سے تعبیر فرما کر ارشاد ہوا: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔ یعنی جن لوگوں نے سچے دل سے اﷲ تعالیٰ کو اپنا رب یقین کرلیا اور اس کا اقرار بھی کرلیا۔ یہ تو اصل ایمان ہوا، آگے اس پر مستقیم بھی رہے ، یہ عمل صالح ہوا۔ اس طرح ایمان اور عملِ صالح کے جامع ہوگئے ۔ لفظ استقامت کی تفسیر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ ایمان و توحید پر قائم رہے ، اس کو چھوڑا نہیں۔اور تقریباً یہی مضمون حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے ۔ انھوں نے استقامت کی تفسیر اخلاصِ عمل سے فرمائی ہے ۔ اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ ” استقامت یہ ہے کہ تم اﷲ کے تمام احکام، اوامر اور نواہی پر سیدھے جمے رہو، اس سے اِدھر اُدھر راہِ فرار لومڑیوں کی طرح نہ نکالو “۔اس لیے علما نے فرمایا کہ استقامت تو ایک لفظ مختصر ہے مگر تمام شرائعِ اسلامیہ کو جامع ہے جس میں تمام احکامِ الٰہیہ پر عمل اور تمام محرمات و مکروہات سے اجتناب دائمی طور پر شامل ہے ۔

تفسیر کشاف میں ہے کہ انسان کا ربنا اﷲ کہنا جبھی صحیح ہوسکتا ہے جب کہ وہ دل سے یقین کرے کہ میں ہر حال اور ہر قدم میں اﷲ تعالیٰ کی زیرِتربیت ہوں۔ مجھے ایک سانس بھی اس کی رحمت کے بغیر نہیں آسکتا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان طریقِ عبادت پر ایسا مضبوط و مستقیم رہے کہ اس کا قلب اور قالب دونوں اس کی عبودیت سے سرِمو انحراف نہ کریں۔حضرت علی اور ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے استقامت کی تعریف اداے فرائض سے فرمائی اور حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا : استقامت یہ ہے کہ تمام اعمال میں اﷲ کی اطاعت کرو اور اس کی معصیت سے اجتناب کرو۔(معارف القرآن،ملخصا)

رمضانی مسلمان
اس لیے اﷲ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں جن نیک اعمال کی توفیق مرحمت فرمائی تھی، ان پر ہمیں رمضان بعد بھی جمے رہنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے ۔ رمضان المبارک میں تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نیکیوں کی ایک خوش گوار فضا قائم تھی، اب وہ مبارک و مسعود زمانہ گزر گیا لیکن یہ اس کی ناقدری ہوگی کہ عید کی خوش خبری ملتے ہی رمضان المبارک کے درس کو بھلا دیا جائے ۔اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے لیے خوشی نہیں بلکہ ڈرنے کا مقام ہے ۔ جس میں نمازوں کی پابندی ختم اور قرآن مجید سے دوری پیدا ہو جائے اور ذکر و اذکار سے غفلت ہو۔رمضان المبارک کے گزرتے ہی عبادتوں سے دور اور گناہوں پر دلیر ہو جانا گویا اس بات کی علامت ہے کہ ہم رمضان کی برکات سے کچھ حاصل نہیں کر پائے ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو مسلمان رمضان المبارک کی سنت و نفل نماز تراویح میں ایک ڈیڑھ گھنٹے کھڑے رہتے تھے ، وہ رمضان کے گزر جانے پر فرض نمازوں کے لیے دن رات میں کُل ملا کرایک ڈیڑھ گھنٹہ نہیں نکال پاتے ۔ ہمارے اس رویے کی وجہ سے اگر کوئی ان معمولات کو موسمی بخار یا ہمیں رمضانی مسلمان سے تعبیر کرے تو اس سے بڑی بد قسمتی و محرومی اور کیا ہوگی؟

مزید چاک و چوبند رہنے کی ضرورت 
رمضان المبارک توہماری زندگیوں میں خوش گوار تبدیلیاں لانے کے لیے آیا تھا،جس کے لیے اﷲ تعالیٰ نے مخصوص انتظامات فرمائے تھے اور اپنے بندوں کو نیکیوں پر کار بند کرنے کے لیے سرکش شیاطین کو بھی بیڑیوں میں جکڑ دیا تھا، اب وہ آزاد ہوا ہے تو ہمیں اس سے مزید چاک و چوبند رہنے کی ضرورت ہے نہ کہ پرانی یاری نبھانے کی۔

نیکیوں پر مداومت کی فضیلت
نیکیوں پر مداومت و ہمیشگی ہی صالحین کا طریقہ ہے ، رسول اﷲ ﷺنے ہمیں یہی تعلیم دی ہے ۔جب حضرت سفیان بن عبد اﷲ ثقفیؓنے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول! مجھے ایسا کام بتائیں جسے میں مضبوطی سے تھامے رکھوں، تو رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا:قُلْ ربی اﷲ ثْمَّ استَقِم۔کہومیرا رب اﷲ ہے ، پھر اس بات پر ثابت قدم رہو۔نیز خود آپ ﷺکا مبارک طریقہ نیکیوں کے اہتمام کا تھا، جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالی عنہا روایت کرتی ہیں:رسول اﷲ ﷺ جب کوئی کام کرتے تو اس پر ہمیشہ قائم رہتے ۔(مسلم)ایک حدیث میں واردو ہوا ہے :پسندیدہ اعمال میں اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے ، خواہ مقدار میں وہ تھوڑا ہو۔(مسلم)ایک روایت میں ہے :اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین و عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو۔(بیہقی)

ضروری تنبیہ
ہاں نیکیوں و مستحب اعمال پر مداومت و ہمیشگی اختیار کرنے میں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ نیک اعمال پر عملاً ہمیشگی اختیار کرنے میں جب کہ اس پر ہمیشگی کا حکم موجود نہ ہو دو صورتیں ہیں؛ (۱) پہلی صورت یہ کہ کسی مستحب یا نیک عمل پر عملاً مداومت کی جائے ، اعتقاداً اسے لازم و ضروری نہ سمجھا جائے ، یہی مطلوب ہے (۲) دوسری صورت یہ ہے کہ اسے ہمیشگی کے ساتھ کیا جائے اور یہ مداومت صرف عملاً نہیں بلکہ اعتقاداً بھی ہو، یعنی شرعاً اس کام کو فرض یا واجب سمجھ کر کیا جانے لگے، جب کہ اس کے متعلق فرض یا واجب ہونے کا حکم شریعت میں موجود نہ ہو۔ ایسا عمل اعتقاد میں فساد کے سبب نیکی و مستحب نہیں رہتا بلکہ ممنوع قرار پاتا ہے اور اس کا ترک واجب ہو جاتا ہے ۔اس کی تفصیل معتبر کتب اور اہلِ علم سے معلوم کی جا سکتی ہے ۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال پر مداومت نصیب فرمائے اور اپنی نافرمانیوں سے بچائے رکھے ۔ آمین